Oct 2, 2017

" عربی اشعار کی بلاغی خوبیاں "

0 comments

فرزدق کے قصیدہ میمیہ کی بلاغی پیمائش.

                     "  قسط اول "

شاعر فرزدق کہتا ہے:

هَذا الّذي تَعرِفُ البَطْحاءُ وَطْأتَهُ،
  وَالبَيْتُ يعْرِفُهُ وَالحِلُّ وَالحَرَمُ .
 
  ترجمہ:
یہ وہ مقدس شخصیت ہے کہ جس کے عظیم نقش قدم کو وادئ بطحا (یعنی مکہ مکرمہ) پہچانتی ہے اور بیت اللہ (یعنی کعبہ) اور حل و حرم سب ان کو جانتے پہچانتے ہیں.
 
  فرزدق نے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی ذکر نہ کرکے اس نے اپنے اس قصیدے کا آغاز ھذا اسم اشارہ سے کیا ہے سوال یہ ہے کہ اسم گرامی ذکر نہ کرنے اور اسم اشارہ کے ذریعہ قصیدے کے آغاز کے پیچھے بلاغی خوبی کیا ہے؟
 
  جواب: اسم گرامی کا تذکرہ نہ کرنا ادبا اور احتراما ہے.
  اور رہا اسم اشارہ تو بلغاء حضرات فرماتے ہیں کہ اسم اشارہ متعدد بلاغی خوبیوں کے لیئے آتاہے ان میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ اسم اشارہ مشار الیہ کی تعظیم و توقیر اور اس کی عظمت شان کو بیان کرنے کے لیئے آتا ہے اور یہاں پہ اسم اشارہ کا استعمال اسی غرض کے لیئے  ہوا ہے  .
 
    اب مطلب یہ ہوگا کہ یہ وہ عظیم اور مقدس ذات گرامی ہیں.
   
    پھر شاعر نے اسم اشارہ کے بعد الذی اسم موصول کا ذکر کیا ہے اس کی بلاغی خوبی کیا ہے ؟
   
    جواب:  بلغاء حضرات فرماتے ہیں:  قد يكون أغراض تعريف المسند إليه بالصلة زيادة التقرير. 
   
    ترجمة:  كبهي مسند الیہ کو صلہ کے ذریعہ معرفہ بنا یا جاتا ہے اور اس وقت غرض یہ ہوتی ہے کہ مسند الیہ کو مزید واضح کرکے بیان کیا جائے.
   
     الذی کا بلاغی فائدہ یہی ہے کہ سیدناامام زین العابدین کی شخصیت کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کرنا مقصد ہے
اسی طرح ان کی حیثیت کو مزید تفصیل کے ساتھ بیان کرنا مقصد ہے .
اسی لیئے شاعر نے ان کے نام پاک کو ذکر نہ کر کے ان کی شہرت و معرفت کا تذکرہ کیا. اس طرح سے اسم گرامی کے ذکر نہ کرنے میں دو خوبی میسر ہوئی. ایک تو ادب و احترام کی بجاآوری ہوئی. دوسری آپ کی ذات مبارک کا تذکرہ تفصیلا ہوا.
    
      شاعر نے کہا کہ آپ کو وادی بطحاء جانتی ہے جب کہ وادی غیر ذی شعور چیز کا نام ہے. جس کا جاننے اور نہ جاننے سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ وادی نہیں جانتی  ہے بلکہ وادی کے لوگ جانتے ہیں.
     
       اس طرح کی تعبیر کو بلغاء حضرات مجاز عقلی کے نام سے موسوم کرتے ہیں . مجاز عقلی میں ہوتا یہ ہے کہ کسی کام کی نسبت ایسی چیز کی طرف کی جاتی ہے جس کی طرف اس نسبت کیئے جانے کا حق نہیں ہوتا.
      
      خطیب قزوینی صاحب مجاز عقلی کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:  هو إسنادالفعل أو ما في معناه إ لي غير ماهو له. فعل یا معنی فعل کی اسناد اس کے غیر مستحق کی طرف کردینا.
     
     " تعرف البطحاء " میں بھی  ایسا ہی ہوا ہے. کیونکہ حق یہ تھا کہ تعرف فعل کی نسبت بطحاء کی طرف نہ کرکے اھل بطحاء کی طرف کی جاتی اور یہ کہاجاتا ت:  تعرف أهل البطحاء " لیکن ایسا نہ ہوا.
    
    اب پھر سوال یہ پیدا ہوا  کہ بلغاء حضرات ایسا کرتے کیوں ہیں ؟ اور مجاز عقلی کی تعبیر کا استعمال کیوں ہوتاہے؟   اس کا بلاغی فائدہ کیا ہے  ؟
   
     جواب:  معنی میں مبالغہ پیدا کرنا مجاز عقلی کا بلاغی فائدہ ہوتا ہے. شاعر کا مقصد یہ ہے کہ آپ کہ وادی بطحاء حل و حرم میں اتنی زیادہ شہرت ہے  اتنی زیادہ شہرت ہے کہ یوں لگتاہے کہ اہل وادی ہی کیا اس وادی کے درو دیوار اینٹ و پتھر  چرندو پرند سب  آپ کو  جانتے ہیں .

     البطحاء میں الف لام استغراقی ہے . مطلب یہ ہے کہ آپ کی شہرت بطحاء کے ہر فرد کو مستغرق ہے. کوئی فرد ایسا نہیں ہے جو آپ کو نہ جانتا ہو.
    
     وطأة.  کی اضافت.  ہ ضمیر کی طرف کی گئی ہے یہ اضافت بلاغی اعتبار سے اضافت تعظیمی وتشریفی ہے . مطلب یہ ہے کہ ان کے عظیم نقش قدم کو سب جانتے ہیں.
    
     البیت میں الف لام عھد ذھنی  کا ہے .  لہذا بیت سے ہر بیت مراد نہیں ہے بلکہ مخصوص بیت مراد ہے اور وہ بیت اللہ ہے.
     فعل "  یعرفہ " کی تکرار آپ کی شہرت و معرفت کی مزید کثرت کو بتانے کے لیئے لائی گئی ہے.
    
     الحل والحرم میں الف لام استغراقی ہے مطلب یہ ہے کہ آپ کی شہرت حل و حرم کے ہر فرد کو مستغرق ہے. حل و حرم میں کوئی فرد ایسا نہیں ہے جو آپ کو نہ جانتا ہو.

     حل و حرم صنعت طباق پائی جاتی ہے.  طباق کہتے ہیں دو متضاد چیزوں کا جمع ہونا. 
     حل و حرم دونوں آپس میں متضاد ہیں.
    
     اپنے کلام میں صنعت طباق اور صنعت مقابلہ کو جگہ دینا قادر الکلام شاعر کا کام ہوتا ہے. چونکہ دو متضاد چیزوں کے اکٹھا ہونے کے باوجود بھی کلام اپنے مفہوم کی ادائیگی میں کمال کو پہونچا ہو. ایسی خوبی پیدا کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں ہوتی.
    
     والله أعلم بالصواب.
    
فرزدق کے قصیدہ میمیہ کی ترکیب کے بعد انشاءاللہ حسب موقع پورے قصیدہ کی بلاغی پیمائش قارئین کے حوالے کی جاتی رہے گی .

اظھار احمد سعیدی ازہری جامعہ ازہر قاہرہ مصر، فیکیلٹی لغہ عربیہ شعبہ بلاغہ ونقد. 1 / 10 / 2017

No comments:

Post a Comment