Nov 4, 2017

"اعجاز القرآن

0 comments

       قرآن کریم کی بلاغی خوبیاں.

سورہ القارعہ کے فنی محاسن اور اس کی تعبیری باریکیاں.

                    " پہلی قسط "
                
            اس سورہ کی آیتیں دس ہیں یا اگیارہ ہیں اس میں اختلاف ہے.  لیکن اس بات پہ سب کا اتفاق ہے کہ یہ سورہ مکی ہے. ( حاشية الشهاب على تفسير البيضاوي ج / 8 /  ص/ 393  ط، دار صادر بيروت.)
             
اس سورہ کا شان نزول، ترتیب نزول، اور اس کے فضائل پہ بلاغی تحلیل کے بعد پوری ایک قسط إن شاءالله قارئین کے حوالے کی جائے گی.
اس آیت میں بنيادي طور پر جو باتیں مذکور ہیں ان کو میں دوتین باتوں میں بیان کرنا چاہتاہوں. وہ یہ کہ اس سورہ میں وقوع بعث کا اثبات ہے، اعمال کی جزاء کا اثبات ہے، اعمال صالحہ کی جزاء جنت ہوگی،  اور اعمال سیئہ کی جزاء جہنم ہوگی. 
خاص طور سے قیامت  کی سختی کو مکمل طریقے سے کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے. اور  ہر ہیئت ترکیبیہ میں قیامت کا خوف مکمل طریقے سے مسیطرہے اور غالب ہے.    اور قارئیں یہ دیکھیں گے کہ اللہ نے جو جو ترکیب اور جو جو الفاظ استعمال کیا ہے ہر ایک سے قیامت کی ھولناکی مکمل طریقے سے ظاہر ہورہی ہے .

اس سورہ کا ربط اس سے پہلی والی سورت سے.

امام رازی علیہ الرحمہ نے تفسیر کبیر میں اس سورہ کا ربط پہلی والی سورہ سے بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ جب اللہ تعالی نے اس سے پہلی والی سورہ میں اپنی بات کو اس آیت پہ لاکر ختم کیا " إن ربهم بهم يومئذ لخبير "  تو گویا کہ اس پر سوال ہوا کہ وہ دن کیا ہے؟  اس کا جواب دیا گیا کہ وہ دن قارعہ ہے. ( تفسیر رازی،  ج،  32،  ص،  70 ، ط، درالفکر،  ).

قرع باب فتحہ سے آتا ہے.  جس کا لغوی معنی ہے چوٹ لگانا.  قارع اسم فاعل ہے یعنی چوٹ لگانے والا.
حادثہ عظیمہ کو بھی قارعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے فرمان باری تعالی ہے  : ولا يزال الذين كفروا تصيبهم بما صنعوا قارعة " ترجمہ:  کافروں کو مسلسل ان کے کارناموں کی وجہ سے عظیم مصبت پہونچتی رہے گی.

اس آیت میں قیامت کی ہولناکی کیسی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے امام ابن عاشور کے اس قول سے پتہ لگایا جاسکتا ہے.
امام ابن عاشور  علیہ الرحمہ  "التحریر والتنویر" میں ارشاد فرماتے ہیں :  الافتتاح بلفظ القارعة افتتاح مهول،  وفيه تشویق إلى معرفة ما سيخبر به.  ( التحرير والتنوير،  ج 30،  ص، 509،  ط مكتبة دارالتونسية للنشر،  تونس. )

ترجمة:  القارعة کے لفظ سے اس سورہ کا افتتاح بہت  خوفناک ہے جب بھی کبھی اس طرح کا افتتاح ہوتا ہے تو اس میں سامع کو شوق سوار ہوجاتا ہے کہ اب آنے والا بیان جو آرہا ہے وہ  ہوگا؟  نہ جانے کیا بیان کیا ئے گا  ؟

اس لیئے وہ اپنی پوری توجہ مرکوز کردیتا ہے.  آنے والی بات کو سننے کے لیئے تیار ہوجاتا ہے .
اب جب جس آیت کا افتتاح ہی اتنا خطرناک ہے تو سوچ سکتے ہیں کہ آنے والا مضمون کتنا خطرناک ہوگا  ؟
  
سارے مفسرین متفق ہیں کہ القارعة  قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے. 

سوال:  القارعة میں الف لام کون سا ہے؟ 
جواب:  القارعة میں الف لام عھد ذھنی کا ہے اور اس سے مراد  کوئی عام آواز نہیں ہے بلکہ مخصوص دن قیامت کی  آواز ہے.
سوال:  القارعة میں تاء کون سی ہے  ؟
جواب: القارعة میں تاء مبالغے کی ہے مطلب یہ ہے کہ مبالغے کی ساتھ جتنی سخت قسم کی آواز تم مراد لے سکتے ہو مراد لے لو  لیکن یاد رکھنا کہ قیامت کی آواز اس سے بھی زیادہ سخت ہوگی. 
صاحب حاشیہ شیخ زادہ فرماتے ہیں : اتفقوا على أن القارعة من أسماء يوم القيامة سمي بها لأن الأجرام العلوية والسفلية يصطكان اصطكاكا شديدا عند تخريب العالم فيسبب ذلك الاصطكاك. ( حاشية شيخ زادة على تفسير البيضاوي. ج، 4، ص،  592،  ط، مكتبة الحقيقة ، استانبول،  تركي . )  
ترجمة:  مفسرين كرام کا اتفاق ہے کہ قارعہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے،  قارعہ اس کا نام اس لیئے رکھا گیا کہ دنیا جب برباد ہوگی اس وقت زمین و اسمان ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے اور اس ٹکراؤ کی وجہ سے یہ آواز پیدا ہوگی. 
امام رازی فرماتے ہیں  : أن القارعة هي التي تقرع الناس بالأهوال والإفزاع.  وذلك في السموات بالانشقاق والانفطار. ( تفسیر کبیر، ج 32 ، ص 70، )  
ترجمة:  قارعہ لوگوں پہ خوف و فزع کی وجہ سے مصیبتیں ڈھارہی ہوگی اور یہ آواز آسمان کے پھٹنے کی وجہ سے ہوگی.
اب اس کی روشنی میں اس آوازی کی سختی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے. 
امام ابن عاشور فرماتے ہیں کہ القارعة مبتداء ہے.  اور ما القارعة اس کی خبرہے.  
دوسری صورت یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ القارعہ بعینہ مستقل جملہ ہے اور اس کی صورت یہ کہ   القارعة مبتداء ہے اور اس کی خبر مقدر ہے اصل عبارت یوں ہے :  القارعة قریبة . 
یا اصل عبارت یہ ہے : أتت القارعة .
پھر  "مالقارعة " جملہ مستانفہ ہے جو تھویل و تخویف کے لیئے لایا گیا ہے.
   ( دیکھئے  :  التحرير والتنوير،  ج 30،  ص، 509،  ط مكتبة دارالتونسية للنشر،  تونس.  ) 

   اس عبارت کی مزید بلاغی خوبیاں کیا ہیں ان شاءاللہ اگلی قسط میں بیان آئے گا. طوالت کا خوف دامن گیر ہے اس لیئے اسی پہ اکتفاء کرتا ہوں.

( نوٹ ) اہل علم حضرات سے علمی شائستہ اسلوب میں اصلاح کی گزارش ہے.

اظھار احمد سعیدی ازہری جامعہ ازہر قاہرہ مصر، فیکیلٹی لغہ عربیہ شعبہ بلاغہ ونقد. 3 / 11 / 2017

No comments:

Post a Comment